Category: Uncategorized

قبروں کو پکا کرنا،گنبد بنانا کیسا ؟؟

محمد شعیب المدنی

جون ۲۰۱۴
امام حاکم علیہ الرحمہ و امام طبرانی علیہ الرحمہ، حضرت عمارہ بن حزم رضی اﷲ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ سرور کائناتﷺ نے مجھے ایک قبر پر بیٹھے دیکھا، فرمایا اور قبر والے! قبر سے اُتر آ، نہ تو قبر والے کو ایذا دے نہ وہ تجھے

(شرح الصدور بحوالہ طبرانی و حاکم باب تاذیہ بسائرہ وجوہ الاذی ص 126، خلافت اکیڈمی سوات)

٭ رسول پاکﷺ نے فرمایا۔ میت کو جس بات سے گھر میں ایذا ہوتی ہے، قبر میں بھی اس سے ایذا ہوتی ہے

(الفردوس بما ثور الخطاب، حدیث دارالکتب العلمیہ بیروت، جلد اول، ص 199)

٭ نبی پاکﷺ ارشاد فرماتے ہیں۔ مردے کی ہڈی کو توڑنا اور اسے ایذا پہنچانا ایسا ہی ہے جیسے زندہ کی ہڈی کو توڑنا

(سنن ابو دائود، کتاب الجنائز)
٭ امام شامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں جس سے زندوں کو اذیت ہوتی ہے، اس سے مردے بھی ایذا پاتے ہیں

(ردالمحتار، فصل الاستنجائ، ادارۃ الطباعۃ المصریۃ مصر، جلد اول، ص 229)
٭ امام ابن شیبہ علیہ الرحمہ اپنی مصنف میں حضرت عبداﷲ ابن مسعود رضی اﷲ عنہ سے راوی ہیں۔ مسلمان کو بعد موت تکلیف دینی ایسی ہے جیسی زندگی میں اسے تکلیف پہنچائی

(شرح الصدور، بحوالہ مصنف ابن ابی شیبہ باب تاذیہ بسائرہ وجوہ الاذی خلافت اکیڈمی سوات، ص 126)
٭ شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فتح القدیر میں فرماتے ہیں۔ اس بات پر اتفاق ہے کہ مردہ مسلمان کی عزت و حرمت زندہ مسلمان کی طرح ہے

(فتح القدیر، فصل فی الدفن، جلد 2، ص 102، مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر)

جب ایک مسلمان کی قبر کی حرمت کا یہ حکم ہے تو پھر اﷲ تعالیٰ کے نیک بندوں کے مزارات کی تعظیم کا کس قدر خیال رکھنا چاہئے مگر افسوس موجودہ دور کے خارجی وہابی جوکہ یہودی قوتوں کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں۔ وہ انبیاء اور اولیاء کی عداوت میں اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ وہ اصل شریعت کو پس پشت ڈالے ہوئے ہیں۔امام حاکم علیہ الرحمہ و امام طبرانی علیہ الرحمہ، حضرت عمارہ بن حزم رضی اﷲ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ سرور کائناتﷺ نے مجھے ایک قبر پر بیٹھے دیکھا، فرمایا اور قبر والے! قبر سے اُتر آ، نہ تو قبر والے کو ایذا دے نہ وہ تجھے

(شرح الصدور بحوالہ طبرانی و حاکم باب تاذیہ بسائرہ وجوہ الاذی ص 126، خلافت اکیڈمی سوات)
٭ رسول پاکﷺ نے فرمایا۔ میت کو جس بات سے گھر میں ایذا ہوتی ہے، قبر میں بھی اس سے ایذا ہوتی ہے

(الفردوس بما ثور الخطاب، حدیث دارالکتب العلمیہ بیروت، جلد اول، ص 199)

٭ نبی پاکﷺ ارشاد فرماتے ہیں۔ مردے کی ہڈی کو توڑنا اور اسے ایذا پہنچانا ایسا ہی ہے جیسے زندہ کی ہڈی کو توڑنا

(سنن ابو دائود، کتاب الجنائز)

٭ امام شامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں جس سے زندوں کو اذیت ہوتی ہے، اس سے مردے بھی ایذا پاتے ہیں

(ردالمحتار، فصل الاستنجائ، ادارۃ الطباعۃ المصریۃ مصر، جلد اول، ص 229)
٭ امام ابن شیبہ علیہ الرحمہ اپنی مصنف میں حضرت عبداﷲ ابن مسعود رضی اﷲ عنہ سے راوی ہیں۔ مسلمان کو بعد موت تکلیف دینی ایسی ہے جیسی زندگی میں اسے تکلیف پہنچائی

(شرح الصدور، بحوالہ مصنف ابن ابی شیبہ باب تاذیہ بسائرہ وجوہ الاذی خلافت اکیڈمی سوات، ص 126)
شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فتح القدیر میں فرماتے ہیں۔ اس بات پر اتفاق ہے کہ مردہ مسلمان کی عزت و حرمت زندہ مسلمان کی طرح ہے

(فتح القدیر، فصل فی الدفن، جلد 2، ص 102، مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر)

جب ایک مسلمان کی قبر کی حرمت کا یہ حکم ہے تو پھر اﷲ تعالیٰ کے نیک بندوں کے مزارات کی تعظیم کا کس قدر خیال رکھنا چاہئے مگر افسوس موجودہ دور کے خارجی وہابی جوکہ یہودی قوتوں کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں۔ وہ انبیاء اور اولیاء کی عداوت میں اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ وہ اصل شریعت کو پس پشت ڈالے ہوئے ہیں۔
مزارات کی تعمیر شریعت کے آئینہ میں
اﷲ تعالیٰ کے نیک بندوں کے مزار تعمیر کروانا شرعی اعتبار سے جائز ہے،

چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے

القرآن: وَکَذَلِکَ اَعثَرْنَا عَلَیْہِمْ لَِیَعْلَمُوا اَنَّ وَعْدَ اللّہِ حَقٌّ وَاَنَّ السَّاعَۃَ لَا رَیْبَ فِیْھَا اِذْ َتَنَازَعُونَ بَیْنُمْ اَمْرَہُمْ فَقَالُوْا ابنُوْا عَلَیِْھِم بُنْیَانًا رَّبَُّھُم اَعْلَمُ بِِھِمْ قَالَ الَّذِیْنَ غَلَبُوا عَلَیٰ اَمرِھِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیْھِمْ مَّسْجِدًا

ترجمہ: اور اسی طرح ہم نے ان کی اطلاع کردی کہ لوگ جان لیں کہ اﷲ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت میں کچھ شبہ نہیں۔ جب وہ لوگ ان کے معاملے میں باہم جھگڑنے لگے تو بولے ان کے غار پر کوئی عمارت بنائو ان کا رب انہیں خوب جانتا ہے۔ وہ بولے جو اس کام میں غالب رہے تھے، قسم ہے کہ ہم تو ان پر مسجد بنائیں گے

(سورۂ کہف، آیت 21، پارہ 15)
تفسیر

مشائخ کرام اور علماء کرام کے مزارات کے اردگرد یا اس کے قریب میں کوئی عمارت بنانا جائز ہے۔ اس کا ثبوت مندرجہ بالا آیت سے ملتا ہے۔ قرآن مجید نے اصحاب کہف کا قصہ بیان فرماتے ہوئے کہا
قَالَ الَّذِیْنَ غَلَبُوا عَلَیٰ اَمرِھِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیْھِمْ مَّسْجِدًا
وہ بولے اس کام میں غالب رہے کہ ہم تو ان اصحاب کہف پر مسجد بنائیں گے۔ تفسیر روح البیان میں علامہ اسماعیل حقی علیہ الرحمہ نے اس آیت میں ’’بنیاناً‘‘ کی تفسیر میں فرمایا۔
دلیل:

یعنی انہوں نے کہا کہ اصحاب کہف پر ایسی دیوار بنائو جو ان کی قبر کو گھیرے اور ان کے مزارات کے جانے پر محفوظ ہوجاوے جیسے کہ سرکار اعظمﷺ کی قبر شریف چار دیواری سے گھیر دی گئی ہے مگر یہ بات نامنظور ہوئی تب مسجد بنائی گئی۔

’’مسجداً‘‘ کی تفسیر میں تفسیر روح البیان میں ہے کہ ’’یصلی فیہ المسلمون ویتبرکون بمکانہم‘‘ یعنی لوگ اس میں نماز پڑھیں اور ان سے برکت لیں۔ قرآن مجید نے ان کی دو باتوں کا ذکر فرمایا۔ ایک تو اصحاب کہف کے گرد قبہ اور مقبرہ بنانے کا مشورہ کرنا، دوسرے ان کے قریب مسجد بنانا اور کسی باب کا انکار نہ فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ مزارات اور قبہ بنانا اور قریب میں مسجد بنانا اس وقت بھی جائز تھے اور اب بھی جائز ہیں۔ اگر غلط ہوتے تو قرآن مجید کبھی اس کا حکم نہیں دیتا۔ مزارات اولیاء شعائر اﷲ ہیں اور اس سے برکتیں حاصل کرنا اور اس کی تعمیر قرآن مجید سے ثابت ہے۔
دلیل:

کتب اصول سے ثابت ہے کہ ’’شرائع قبلنا یلزمنا‘‘ سرکار اعظمﷺ کے جسم اطہر کو سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کے حجرے میں رکھا گیا ہے۔ اگر یہ جائز نہ تھا تو صحابہ کرام علیہم الرضوان اس کو گرا دیتے پھر تدفین فرماتے مگر یہ نہ کیا بلکہ قاطع شرک و بدعت حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں اس کے گرد کچی اینٹوں کی گول دیوار کھینچوادی پھر ولید بن عبدالملک کے زمانے میں صحابی رسول حضرت عبداﷲ ابن زبیر رضی اﷲ عنہ نے تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کی موجودگی میں اس عمارت کو نہایت مضبوط بنایا اور اس میں پتھر لگوائے۔
دلیل:

’’بخاری جلد اول کتاب الجنائز باب ماجاء فی قبر النبی و ابی بکر و عمر‘‘ میں ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ولید ابن عبدالملک کے زمانے میں روضہ رسول اﷲﷺ کی ایک دیوار گر گئی تو ’’اخذوفی بنائہ‘‘ صحابہ کرام علیہم الرضوان اس دیوار کے بنانے میں مشغول ہوگئے۔
دلیل :

بخاری جلد اول کتاب الجنائز اور مشکوٰۃ باب البکا علی المیت میں ہے کہ حضرت امام حسن ابن علی رضی اﷲ عنہما کا انتقال ہوا تو ان کی بیوی نے ان کی قبر پر ایک سال تک قبہ ڈالے رکھا۔
یہ بھی صحابہ کرام علیہم الرضوان کی موجودگی میں ہوا مگر کسی نے اس کا انکار نہ کیا۔

دلیل:

تفسیر روح البیان جلد تیسری پہلا پارہ ’’انما یعمر مسجد اﷲ من امن باﷲ‘‘ کے تحت لکھتے ہیں کہ علماء اور اولیائاﷲ کی قبروں پر عمارت بنانا جائز ہے جبکہ اس کا مقصد لوگوں کی نظروں میں عظمت پیدا کرنا ہو،تاکہ لوگ اس قبر کو حقیر نہ جانیں۔

بدمذہبوں کی دلیل

بدمذہب اس حدیث کو بنیاد بناتے ہیں:
الحدیث… حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو سرکار اعظمﷺ نے حکم دیا کہ تصویر مٹا دو اور اونچی قبروں کو برابر کردو۔

بدمذہبوں کی دلیل کا جواب

1… جن قبروں کو گرا دینے کا حکم حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو دیا گیا، وہ مسلمانوں کی قبریں نہیں تھیں بلکہ کفار کی قبریں تھیں۔ کیونکہ ہر صحابی رضی اﷲ عنہ کے دفن میں سرکار اعظمﷺ خود شرکت فرماتے تھے، نیز صحابہ کرام علیہم الرضون کوئی کام سرکار اعظمﷺ کے مشورے کے بغیر نہ کرتے تھے لہذا اس وقت جس قدر مسلمانوں کی قبریں بنیں، وہ یا تو سرکار اعظمﷺ کی موجودگی میں یا آپﷺ کی اجازت سے بنیں تو وہ کون سے مسلمانوں کی قبریں تھیں جوکہ ناجائز بن گئیں اور ان کو برابر کرناپڑا؟ ہاں البتہ غیر مسلموں، عیسائیوں کی قبریں اونچی ہوتی تھیں جس کو مٹانے کا حکم سرکاراعظمﷺ نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو دیا جس کی دلیل یہ حدیث ہے۔
دلیل… بخاری شریف جلد اول ص 61 میں ایک باب باندھا ’’باب ہل ینبش قبور مشرکی الجاہلیۃ‘‘ کیا مشرکین زمانہ جاہلیت کی قبریں اکھیڑ دی جاویں۔ اسی کی شرح میں امام ابن حجر فتح الباری شرح صحیح بخاری جلد دوم ص 26 میں فرماتے ہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام اور اس کے متبعین کے سوا ساری قبریں ڈھائی جائیں کیونکہ اﷲ تعالیٰ کے نیک بندوں کی قبریں ڈھانے (مٹانے) میں ان کی توہین ہے۔
جامع الفتاویٰ میں ہے ’’جب میت مشائخ عظام، علماء و سادات کرام رحمہم اﷲ کی ہو تو اس کے اوپر عمارت (یعنی مقبرہ وغیرہ) بنانا مکروہ نہیں‘‘

(رد المحتار، باب صلاۃ الجنائز، مطلب فی حدیث جلد 3، ص 111، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الصلاۃ، الباب العادی والعشرون، الفصل الثانی، جلد اول، ص 159)
شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے مدارج النبوت میں مطالب المومنین سے نقل کیا ہے کہ سلف نے مشہور مشائخ و علماء کی قبروں پر قبے تعمیر کرنا جائز و مباح رکھا ہے تاکہ زائرین کو آرام ملے اور اس کے سائے میں بیٹھ سکیں۔ اسی طرح مفاتیح شرح مصابیح میں بھی ہے اور مشاہیر فقہاء میں سے اسمٰعیل زاہدی نے بھی اسے جائز قرار دیا ہے

(مدارج النبوت، بحوالہ مطالب المومنین، وصل در نماز جنازہ جلد اول، ص 420، مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر)

(فتاویٰ رضویہ (جدید) جلد 9، ص 418، مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)
علامہ طاہر فتنی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ سلف نے مشہور علماء و مشائخ کی قبروں پر عمارت بنانے کی اجازت دی ہے تاکہ لوگ ان کی زیارت کو آئیں اور اس میں بیٹھ کر آرام پائیں

(مجمع بحار الانوار، تحت لفظ ’’شرف‘‘ جلد 2، ص 187، مطبوعہ منشی نورلکشور لکھنؤ)

(فتاویٰ رضویہ (جدید) جلد 9، ص 418، مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)
کشف الغطاء میں ہے مطالب المومنین میں لکھا ہے کہ سلف نے مشہور علماء و مشائخ کی قبروں پر عمارت بنانا مباح (جائز) رکھا ہے تاکہ لوگ زیارت کریں اور اس میں بیٹھ کر آرام لیں، لیکن اگر زینت کے لئے بنائیں تو حرام ہے۔ مدینہ منورہ میں صحابہ کرام کی قبروں پر اگلے زمانے میں قبے تعمیر کئے گئے ہیں، ظاہر یہ ہے کہ اس وقت جائز قرار دینے سے ہی یہ ہوا اور حضور اقدسﷺ کے مرقد انور پر بھی ایک بلند قبہ ہے

(کشف الغطائ، باب دفن میت، ص 55، مطبوعہ احمدی دہلی)

(فتاویٰ رضویہ (جدید) جلد 9، ص 418، مطبوعہ جامعہ نظامیہ، لاہور)
یعنی یہ اگرچہ نوپیدا ہے پھر بھی بدعت حسنہ (اچھی بدعت) ہے اور بہت سی چیزیں ہیں کہ نئی پیدا ہوئیں اور اچھی بدعت ہیں، اور بہت احکام ہیں کہ زمانے یا مقام کی تبدیلی سے بدل جاتے ہیں

(جواہر الاخطاطی، کتاب الاحسان والکراہیۃ، قلمی نسخہ ص 168۔ بی)

(فتاویٰ رضویہ (جدید) جلد 9، ص 495، مطبوعہ جامعہ نظامیہ، لاہور)

قبر کے لئے پکی اینٹوں کا استعمال کیسا؟
’’مضمرات‘‘ میں ہے کہ حضرت شیخ ابوبکر بن فضل علیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔ ہمارے ہاں قبروں کے لئے پکی اینٹیں اور رفرف لکڑی استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (المبسوط للسرخسی، کتاب الصلاۃ، باب غسل المیت جلد اول الجزء 2، ص 98)
حضرت امام تمر تاشی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔ قبر کے لئے پکی اینٹوں کے استعمال میں اختلاف اس وقت ہے جبکہ میت کے اردگرد لگائی جائیں اور اگر قبر کے اوپر ہوں تو جائز ہے کیونکہ اس طرح قبر کی درندوں سے حفاظت ہوتی ہے جیسا کہ کفن کو چوری سے بچانے کے لئے قبر کو کچی اینٹوں کے ساتھ کوہان نما بنانے کا رواج ہے اور عوام و خواص میں اسے بہت اچھا سمجھا جاتا ہے (ردالمحتار کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب فی دفن المیت، جلد 3، ص 167 تا 170)
تنویر الابصار میں ہے۔ قبر پر قبہ بنانے میں کوئی حرج نہیں اور یہی صحیح ہے (تنویر الابصار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب فی دفن المیت، جلد 3، ص 169)
الحمدﷲ قرآن و حدیث اور فقہی عبارات بلکہ مستند کتب سے یہ ثابت ہوگیا کہ اولیاء اﷲ کی قبور پر گنبد وغیرہ بنانا جائز ہے۔ عقل بھی چاہتی ہے کہ یہ جائز ہونا چاہئے۔ عام کچی قبروں کا عوام کی نگاہ میں نہ ادب ہوتا ہے، نہ احترام، نہ زیادہ فاتحہ نہ کچھ اہتمام ہوتا ہے بلکہ لوگ پیروں تلے اس کو روندتے ہیں اور اگر کسی قبر کو پختہ دیکھتے ہیں، غلاف وغیرہ رکھا ہوا پاتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ یہ کسی بزرگ کی قبر ہے۔ خود بخود فاتحہ کو ہاتھ اٹھ جاتے ہیں۔ مشکوٰۃ شریف باب الدفن میں اور مشکوٰۃ کی شرح مرقات میں ہے کہ مسلمانوں کا زندگی اور موت کے بعد ایک سا ادب ہونا چاہئے۔
مزارات پر چادر چڑھانے کا حکم

مزارات پر چادریں چڑھانے کا مقصد یہ ہے کہ یہ عام لوگوں کی قبروں سے نمایاں محسوس ہوں جس طرح بیت اﷲ پر غلاف چڑھایا گیا تاکہ اسے عام مسجدوں میں شمار نہ کیا جائے۔ قرآن مجید پر غلاف چڑھایا جاتا ہے تاکہ اسے عام کتابوں میں شمار نہ کیا جائے۔ اسی طرح مزارات اولیاء پر چادریں چڑھا کر اس کو نمایاں کرنا ہے تاکہ لوگ عام قبر نہ سمجھیں۔
دلیل… احادیث کی معتبر کتاب ابو دائود شریف میں ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ سرکار اعظمﷺ، صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے مزارات مقدسہ پر غلاف (چادریں) موجود تھیں۔
الحدیث… حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں۔ حضورﷺ کی قبر مبارک پر سرخ چادر ڈالی گئی تھی۔
(بحوالہ مسلم شریف، جلد اول، کتاب الجنائز، رقم الحدیث 2136، ص 733، مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)
حضرت امام عبدالغنی نابلسی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں لیکن ہم کہتے ہیں اگر چادریں چڑھانے اور عمامے اور کپڑے وغیرہ رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ عاملوگوں کی نظر میں ان کی عزت و عظمت میں زیادتی ہو، تاکہ لوگ صاحب مزار سے نفرت نہ کریں، اور غافل زائرین کے دلوں میں ان کا ادب و احترام پیدا ہو، کیونکہ ان کے دل مزارات میں موجود اولیاء کرام (کا مقام نہ جاننے کے سبب ان) کی بارگاہ میں حاضری دینے اور ان کا ادب و احترام کرنے سے خالی ہوتے ہیں جیسا کہ ہم پیچھے بیان کرچکے کہ اولیاء اﷲ رحمہم اﷲ کی مقدس ارواح ان کے مزارات کے پاس جلوہ افروز ہوتی ہیں لہذا چادریں چڑھانا اور عمامے وغیرہ رکھنا بالکل جائز ہے اور اس سے منع نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر ایک کیلئے اسی کا بدلہ ہے جو اس نے نیت کی۔ا گرچہ یہ ایسی بدعت ہے جس پر ہمارے اسلاف کا عمل نہ تھا لیکن یہ بات ویسے ہی جائز ہے جیسے فقہاء کرام رحمہم اﷲ ’’کتاب الحج‘‘ میں فرماتے ہیں۔ حج کرنے والا طواف وداع کے بعد الٹے پائوں چلتا ہوا مسجد حرام سے نکلے کیونکہ یہ بیت اﷲ شریف کی تعظیم و تکریم ہے اور ’’منہج السالک‘‘ میںہے۔ طواف وداع کے بعد لوگوں کا الٹے پائوں واپس لوٹنا نہ تو سنت ہے اور نہ ہی اس بارے میں کوئی واضح حدیث ہے۔ اس کے باوجود بزرگان دین ایسا کیا کرتے تھے (الفتاویٰ تنقیح الحامدیہ، وضع السّْتوْر جلد 2، ص 357)
نوٹ: مزار شریف پر صرف ایک چادر کافی ہے۔ زائد چادریں صدقہ کرنا بہتر ہے۔

مندرنہ علی علیہ السلام

عاجز کو عطیہ ہے والد محترم رحمتہ اللہ علیہ کی طرف سے عاجز کی اجازت ہے اپ کو قوی ترین سایہ نظر بد جناتی مسائل جہاں ہوں اور جہاں ہر چیز کام کرنا چھوڑ جائے وہاں آزمائیں گا
اللہ عزوجل کے کرم اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحمت سے انتہائی قوی ترین ہے بڑے بڑے معاملات کو لپیٹ میں لینے کی طاقت رکھتا ہے
صرف حسب ضرور وقت پر تین مرتبہ پڑھ کر دم کردیجیے گا اور پانی پر دم کرکے پلا دیجئے گا فوری شیاطین علوم سحر جناتی مسائل سے چھٹکارا مل جائے گا ان شاء اللہ عزوجل
ہدیہ کے لیے تین بار سورہ اخلاص ایک بار سورہ فاتحہ گیارہ بار درود شریف پڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سمیت تمام امت مسلمہ کے مرحومین بالخصوص والد محترم رحمتہ اللہ علیہ کو ایصال فرمادیجیے گا
تاحیات رکھیے اپنے تک ہی
ان شاء اللہ کسی چیز کی مذید ضرورت ہی نہ ہوگی

مندرنہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد کہو خدا کو درود مصطفی
مردان شاہ علی کی ضرب زور سے لگا
غیب بات پر سوار ہوئے آپ شہنشاہ
لالہ الا اللہ کو پڑھے پیر مرتضی
سیف اللہ کی اوہنا آپ لی اٹھا
اتحیات للّٰہ کی ڈھال ہوئی عطا
الم ترکیف فعال ربک کی شمشیر ہوئی عطا
لیلایف قریش کٹار سمبھال لا
قل ھو اللہ احد کا نیزہ دست میں پھڑا
قل اعوز رب الناس کمان ہے صفا
یاایھاالمزمل کی تیرکش ہاتھ میں پکڑا
والتین وزیتون وطورسینین ھذا بلد گزر اپ کی اللہ
مومن کمر باند کر تیار ہو کھڑے آ
مارے وکنتر الا انت جبرائیل میکائیل جی وی آ
ہے سی ملک اسرافیل عزرائیل یا علی جی وی تا
لا الہ الا انت سبحانک کہہ کر یا بدوح مدد آ
محمد بھی اسم اعظم پڑھ کر پشت پر ہوا تھا
خواجہ اویس قرنی آئے جو نبیوں کا یار تھا
خواجہ خضر آئے جو بیڑوں کے ملاح
چڑھے بیامی دین گیلانی جو غوثوں کے بادشاہ
فرید شکر گنج خواجہ قطب کو بلا
آدم نبی نوح زکر شیث کا بھی پا
یوسف تے یعقوب ادریس بھی تھا
موسی کے تورات شطر احمد کو پکڑا
چڑھے حضرت ابراھیم ساتھ اسمائیل بھی تھا
چڑھے حضرت عیسی انجیل بغل میں نال یونس بھی لا
سلیمان بھی زبور لے داؤد آگیا
چڑھے نیں سب مرسل حکم محمد صلی اللہ و آلہ وسلم کا تھا
دلدل پر سوار ہوئے یا علی لافتاح
کفر کے بلی سست ہوئے رسم بھی کانپتا تھا
محمود جن کو قید کیا جو جنوں کا بادشاہ تھا
رامن کے مشندر شاہ شرف کو باندھ لا
جتھ کتھ گُرو ناتھ پر بو علی کا پہرہ تھا
کفار چہل کاف پکڑ رامن کو لیاو
سیتا کو لاو پکڑ رامن کے سوا
دھیرس کو قید کیا جو لنکا میں رہتا تھا
بھیروں سبھی کو قید کر کرا دیا
چھے راگ چھتیس راگنیاں پکڑ حضور میں بلا
جنتر کی تار پنھ سبھی تار کو ہٹا
جن پیڑ تاپ سبھی تار کو ہٹا
جادو مسان کی سب کڑیوں کو میخ لا
لونا چمیری تے کالکاں پکڑ دھرت میں دبا
جو اللہ کو نہ مانے اسے پکڑ مار چھاڑ
نادر تو سبھی کو قید کر کُل جوگنیاں گل زنجیر پا
باشک ناگ کی وس کیل سب گگے کا زور لگا
کالے علم کو قید کرکرا دیا
چھٹی چلی مٹھ کو جلدی سے پکڑ لا
الو بدن پھاڑ گانڈھ تعویز کو باندھ لا
کیلوں سبھی کو باندھ مداری مدار کا
حضرت سلمان تخت پر بیٹھ کر پریوں کی طرف جا
دیو جن پری سب چڑیلوں کو پکڑ لا
سایہ سبھی باندھ اک نظر چھٹ میں اڑا
بیماری ساری دفع کر یامحی الدین بادشاہ
توپ اور بندوق نیزہ کو باندھ لا
ہتھیار سبھی کو باندھ جو زمین میں رہا
درود بر احمد صلوة مرتضیٰ
میری عاجزی کرو منظور واسطے خدا
الصلوة وسلام علیک یا مومنین یا مومنین یا مومنین
شاہ مرداں شیر یزداں قوت پروردگار
لافتاح الا علی لا سیف زولفقار
ہر بلائے رد باشد ایں بگو ہفتاد باء
ہر مہم پیش آئید مدد پروردگار

ویابی اہلحدیث سب سے بڑے شیطان پرست

میں نے آج تک اتنے بڑے شیطان پرست نہیں دیکھے اور نہ اسلام کو نقصان پہنچانے والے شیطان دیکھے ہیں جتنے بڑے شیطان خبیث وکٹورین اور وہابڑے ہیں آپ میری بات پر حیران ہونگے اسکی تھوڑی سی وضاحت کرتا چلوں آج تک شیطان نے اتنے بڑے پیمانے پر عبادت کو گمراہی کہنے کی تحریک نہیں چلائی جتنی بڑی تحریک عبادت سے روکنے کی شب معراج اور شب برات کے موقع پر نجدی خارجیوں وہابڑوں نے چلائی جہاں طاقت استعمال کر سکتے تھے وہاں طاقت استعمال کی اور جہاں برین واشنگ کر سکتے تھے وہاں برین واشنگ کی جہاں انٹرنیٹ استعمال کر سکتے تھے وہاں انٹرنیٹ استعمال کیا جہاں ٹی وی شوز کر سکتے تھے وہاں ٹی وی شوز کیے جہاں سوشل میڈیا استعمال کر سکتے تھے وہاں سوشل میڈیا استعمال کیا یہاں تک کہ یہاں فون استعمال کر سکتے تھے وہاں فون اور ایس ایم ایس کر کے لوگوں کو اللہ پاک گھر میں عبادت سے منع کیا اور صرف منع نہیں بلکہ اسے گمراہی کہا اور کہا یہ عبادت آپکو جھنم میں لے جائے گی نماز ِادا کرنے کو منع کر کے کہا یہ گمراہی ہے قرآن پاک پڑھنے کو کہا یہ بدعت ہے جاگ کر عبادت گزاروں کو الوؤں سے تشبیه دے کر امت مسلمہ کو عبادت سے ایسے ڈرا دیا جیسے امت مسلمہ مسجد کے بجائے شراب خانے میں جا رہی ہے عبادت کے بجائے کوئی چوری کرنے جا رہی ہے اور اسی وجہ سے امت مسلمہ کے بھولے بھالے لوگ دین سے دوری کے سبب عبادت اور اللہ پاک کے قرب سے دور ہوگئے اس وقت سے دور ہوگئے جب فرشتے آواز لگا رہے تھے کہ کوئی ہے جو اللہ پاک سے اسکی رحمت مانگے افسوس اس وقت ان جھنم کے کتے اور شیطان پرستوں کے باعث امت مسلمہ خواب غفلت میں پڑی خراٹے مار رہی تھی اور شیطان پرست جشن منا رہے تھے امت مسلمہ اللہ پاک کی اس رحمت سے محرو‫م ہوگئی جس رحمت کی وہ خواہشمند تھی آج شیطان جو انسان کا کھلا دشمن ہے وہ اپنا حربہ استعمال کرکے امت مسلمہ کو خواب غفلت کی نیند سلانے میں کامیاب ہوا افسوس جب اللہ پاک اپنے رحمٰن اور رحیم ہونے کا اظہار کر رہا تھا اس وقت امت مسلمہ شیطان پرست خارجی وکٹورین کے جال میں الجھ کر سو رہے تھے میں اگلے پوسٹ میں ان شاء الله انکے شیطان پرست دماغ کے مطابق انکے جاہلانہ اعتراضات کا تفصیل سے رد کرونگا اور ثابت کرونگا کہ یہ شیطان پرست ٹولہ جو وکٹورین دھرم عرف بے لگام گھوڑوں کے نام سے مشہور ہیں وہ شیطان کے بعد سب سے زیادہ امت مسلمہ اور اسلام کی اساس کو نقصان پہنچا رہے ہیں

امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کاتب وحی

بسم اللہ والصلوة والسلام علی خاتم النبیین و آلہ و صحبہ اجمعین

یہ تحریر اپنے پاس محفوظ کرلیں ان شاءاللہ کام آئے گی

حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کاتب وحی تھے جس کا ثبوت اہل سنت کی کثیر کتب میں موجود ہے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ صرف کاتب تھے خطوط وغیرہ لکھا کرتے تھے تو اُن سے گزارش ہے کہ ایک لمحے کیلئے اگر آپکی بات مان لی جائے تو ذرا بتائیے کہ حضور علیہ السلام کی صحبت بابرکت میں خطوط ہی لکھنا کیا باعث سعادت و شرف نہیں اور حقیقت یہ ہے کہ آپ تو کتابت وحی بھی کرتے تھے —-
اس موضوع پر مواد تلاش کرنے کیلئے کئی کتب دیکھی ہیں اور بہت کچھ ملا بھی ہے پھر ایک دن حضرت علامہ قاری لقمان شاہد قادری صاحب زیدہ مجدہ کی اپنے موضوع پر نہایت عمدہ کتاب “من ھو معاویہ”نظر سے گزری تو اس میں سیدنا معاویہ کے کاتب وحی ہونے پر کثیر حوالہ جات موجود پائے، دیکھ کر اطمینان قلب ملا اور خوشی ہوئی کہ اللہ رب العزت نے ہمیں ایک سے بڑھ کر ایک محقق علماء عطا فرمائے ہیں ، سوچا مزید تلاش کی بجائے کیوں نہ یہی پورا مضمون من و عن لکھ دوں اور پھر جو تھوڑا بہت مواد خود اکٹھا کیا ہے اسے بھی (وضاحت) کے ساتھ مِلا دوں تاکہ قاری کو اچھا خاصہ مواد ایک جگہ مل سکے ، ورنہ نہ ماننے والے کے لئے تو دفتر بھی کم ہیں اور ماننے والے کے لئے ایک سطر ہی کافی ہے

👈محترم علامہ لقمان شاہد صاحب لکھتے ہیں :

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد (ایک روایت کے مطابق) آپ کے والد گرامی رضی اللہ عنہ نے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں عرض کی تھی : یانبی اللہ! میرے بیٹے معاویہ کو اپنا کاتب بنا لیجیے! تو حضور نے ان کی عرضی قبول فرمالی ۔

(انظر :صحیح مسلم باب من فضائل ابی سفیان…………، ج4،ص1945،رقم2501 صحیح ابن حبان، ذکر ابی سفیان…….. ج 16،ص189،رقم7209،وغیرہ)

اور سیدنا معاویہ کو اپنا کاتب مقرر فرما دیا ۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس خدمت کے لئے بارگاہِ اقدس میں رہنے لگے ۔جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

ان معاویة کان یکتب بین یدی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔

سیدنا معاویہ حضور کی بارگاہ میں کتابت کا فریضہ سر انجام دیتے تھے ۔

(المعجم الکبیر للطبرانی، مسند عبداللہ بن عمرو….، ج 13ص554،رقم 14446)

حافظ نور الدین ہیثمی (متوفی807ھ) کہتے ہیں :اس حدیث کی سند حسن ہے ۔
(مجمع الزوائد و منبع الفوائد، باب ماجاء فی معاویة …..ج 9 ص357 ، رقم15924)

اسی دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی تربیت بھی فرمایا کرتے جیسا کہ آپ خود بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب میں لکھ رہا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

یا معاویة ! الق الدواة ، حرف القلم، وانصب الباء، و فرق السین، ولا تعور المیم، وحسن اللہ، و مد الرحمن، وجود الرحیم۔

“اے معاویہ! دوات کی سیاہی درست رکھو، قلم کو ٹیڑھا کرو، (بسم اللہ الرحمن الرحیم کی) “ب”کھڑی لکھو “س” کے دندانے جدا رکھو، “م” کے دائرے کو اندھا نہ کرو (کھلا رکھو)، لفظ “اللہ” خوب صورت لکھو، لفظ “رحمن” کو دراز کرو اور لفظ “رحیم” عمدگی سے لکھو !”

(فضائل القرآن للمستغفری، باب ماجاء فی فضل بسم اللہ الرحمن الرحیم…..، ج 1ص436رقم 556_الفردوس بماثور الخطاب، باب الیا، ج5، ص394، رقم 853_آداب الاملاء والستملاء، البحر والکاغذ، ص170_نھایة الارب فی فنون الادب، ومن معجزاتہ عصمتہ اللہ تعالیٰ لہ من الناس………،ج 18،ص346_المدخل لابن الحاج، فصل فی نیة الناسخ و کیفتیھا، ج 4،ص، 84_العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ رسالہ خالص الاعتقاد ج 29ص459وغیرہ)

پھر ایک وقت آیا کہ عام کتابت کے علاوہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی کتابت وحی کی بھی ذمہ داری لگادی، تو اس طرح دیگر کُتّابِ صحابہ رضوان اللہ اجمعین کے ساتھ آپ بھی یہ فریضہ سر انجام دینے لگے

آپ کی اسی ذمہ داری کی بابت سیدنا عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین فرماتے ہیں :

وکان یکتب الوحی۔

“حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ وحی لکھا کرتے تھے “
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان امام بیہقی (متوفی458ھ) نے نقل کیا ہے، اور اس کے بارے میں امام ذہبی فرماتے ہیں

“قد صح ابن عباس “(یعنی ابن عباس نے صحیح کہا____اصمعی)

(انظر :دلائل النبوۃ و معرفة احوال صاحب الشریعہ، باب ماجاء فی دعائه صلی اللہ اللہ علیہ وسلم علی من اکل بشمالہ…… ج6،ص243____تاریخ اسلام، حرف المیم، معاویہ بن ابی سفیان….. ج 4ص309)

جلیل المرتبت علماء کہتے ہیں

1-حافظ ابوبکر محمد بن حسین آجری متوفی 360ھ فرماتے ہیں

معاویة رحمہ اللہ کاتب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی وحی اللہ عزوجل وھو القرآن بامر اللہ عزوجل ۔

“رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب سیدنا معاویہ پر اللہ رحم فرمائے آپ اللہ کے حکم سے وحی اِلہی؛ قرآن پاک لکھا کرتے تھے ۔”

(الشریعۃ کتاب فضائل معاویة…… ج5)

2-حافظ الکبیر امام ابوبکر احمد بن حسین خراسانی بیہقی متوفی458ھ فرماتے ہیں :

وکان یکتب الوحی ۔
“سیدنا امیر معاویہ کاتب وحی تھے۔”

(دلائل النبوۃ ومعرفة احوال صاحب الشریعۃ باب ماجاء فی دعائه صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔۔۔ج6ص 243)

3-امام شمس الائمہ ابوبکر محمد بن احمد سرخسی حنفی متوفی 483ھ فرماتے ہیں :

وکان یکتب الوحی۔

(المبسوط، کتاب الاکراہ، ج24ص47)

4-امام قاضی ابوالحسین محمد بن محمد حنبلی (ابن ابی یعلی) متوفی 526ھ فرماتے ہیں :

(معاویة)کاتب وحی رب العالمین ۔

حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ تمام جہانوں کے رب کی وحی کے کاتب تھے”

(الاعتقاد، الاعتقاد فی الصحابة ص43)

5-امام حافظ ابوالقاسم اسماعیل بن محمد قرشی طلیحی (قوام السنتہ) (متوفی 535ھ )لکھتے ہیں :

“معاویة کاتب الوحی”

(الحجة فی بیان المحجة و شرح عقیدة اھل السنة ،ج2،ص570،رقم566)

6-علامہ ابوالحسن علی بن بسام الشنترینی اندلسی (متوفی542)فرماتے ہیں :

معاویة بن ابی سفیان کاتب الوحی۔

(الذخیرة فی محاسن اھل الجزیرة ،ج1ص110)

7-حافظ ابو عبدالله حسین بن ابراہیم جوزقانی (متوفی543ھ) فرماتے ہیں :

(معاویة )کاتب الوحی۔

(الاباطیل و المناکیر و الصحاح والمشاھیر، باب فی فضائل طلحة و الزبیر و معاویة …..ص116 رقم 191)

8- علامہ ابوالفتوح محمد بن محمد طائی ہمذانی(ابوالفتوح الطائی)متوفی555ھ لکھتے ہیں :
(معاویة )کاتب وحی رسول رب العالمین و معدن الحلم و الحکم ۔

“سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ رسول رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی حلم و دانائی کی کان تھے “

(کتاب الاربعین فی ارشاد السائرین الی منازل المتقین او الاربعین الطائیة ،الحدیث التاسع و العشرون ……ص174)

9-امام حافظ ابوالقاسم علی بن حسن بن ہبتہ اللہ شافعی (ابن عساکر) (متوفی571) لکھتے ہیں :

(معاویة رضی اللہ تعالیٰ عنہ) خال المؤمنین و کاتب وحی ۔

(تاریخ دمشق الکبیر، ذکر من اسمہ معاویة ،معاویة بن صخر ……ج 59 ،رقم 7510)

10-امام حافظ جمال الدین ابوالفرج عبدالرحمن بن علی الجوزی (متوفی597ھ) نے “کشف المشکل”میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے 12کاتبوں کا تذکرہ کیا ہے جن میں حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بھی ہیں ۔

(انظر :کشف المشکل من حدیث الصحیحن، کشف المشکل من مسند زید بن ثابت، ج2ص96)

11-ابوجعفر محمد بن علی بن محمد ابن طباطبا علوی (ابن الطقطقی) (متوفی709ھ) نے لکھا ہے :

و اسلم معاویة و کتب الوحی فی جملة من کتبہ بین یدی الرسول صلی اللہ علیہ وسلم .

(الفخری فی الآداب السلطانیہ و الدول الاسلامیہ، ذکر شیء سیرة معاویة و وصف طرف من حاله، ص109)

12-حافظ عماد الدین اسماعیل بن عمر بن کثیر قرشی الدمشقی شافعی (متوفی772ھ) لکھتے ہیں :

ثم کان ممن یکتب الوحی بین یدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم.

(جامع المسانید و السنن الھادی لاقوم سنن، معاویة بن ابوسفیان، ج 8ص31 رقم 1760)

13-حافظ ابراہیم بن موسی مالکی (شاطبی) (متوفی790ھ)
نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کتابِ وحی میں سیدنا عثمان، سیدنا علی، سیدنا معاویہ، سیدنا مغیرہ بن شعبہ، سیدنا ابی بن کعب، سیدنا زید بن ثابت وغیرہم کا ذکر کیا ہے :

(انظر: الاعتصام ص239)

14-اسی طرح حافظ ابوالحسن نور الدین علی بن ابوبکر نن سلیمان ہیثمی (متوفی 807ھ) نے بھی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے کُتّابِ وحی کے بارے میں سیدنا معاویہ کا تذکرہ کیا ہے ۔

(انظر: مجمع الزوائد و منبع الفوائد، باب فی کتاب الوحی ج1ص 153 رقم 686)

15-علامہ تقی الدین ابو العباس احمد بن علی حسینی مقریزی (متوفی845)فرماتے ہیں

وکان یکتب الوحی۔
سیدنا معاویہ کاتب وحی تھے۔

(امتاع الاسماع بما لنبی من الاحوال و الاموال و الحفدة والمتاع و اما اجابة اللہ دعوة الرسول صلی اللہ علیہ وسلم……. ج 12 ،ص 113)

16-امام حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجرعسقلانی شافعی (متوفی852ھ) لکھتے ہیں

معاویة ابن ابی سفیان…. الخلیفة صحابی، اسلم قبل الفتح، وکتب الوحی ۔

“سیدنا معاویہ فتح مکہ سے پہلے اِسلام لائے، آپ خلیفتہ المسلمین، صحابی اور کاتب وحی ہیں

(تقریب التہذیب، حرف المیم ص470 رقم 6758)

17-امام حافظ بدرالدین ابو محمد محمود بن احمد عینی حنفی (متوفی855)لکھتے ہیں :

معاویة بن ابی سفیان صخر بن حرب الاموی کاتب الوحی ۔

(عمدة القاری، شرح صحیح البخاری، کتاب العلم، باب من یرداللہ به خیرا یفقھه فی الدین، ج2،ص73،رقم 71)

18-علامہ شہاب الدین ابوالعباس احمد بن محمد قسطلانی مصری شافعی(متوفی 923ھ)
لکھتے ہیں

وھو مشھور بکتابة الوحی۔
“سیدنا معاویہ مشہور کاتب وحی ہیں “

(المواہب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ، الفصل السادس فی امرائه و رسله و کتابه …..، ج1،ص 533)

علامہ قسطلانی نے “ارشاد الساری”میں بھی لکھا ہے کہ

(معاویة) بن ابی سفیان صخر بن حرب کاتب الوحی لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذا المناقب الجمعة ۔

(انظر: ارشاد الساری لشرح صحیح البخاری، کتاب العلم، باب من یرد اللہ به خیرا یفقھه فی الدین، ج1،ص170،رقم71)

19-امام حافظ شہاب الدین ابو العباس احمد بن محمد (ابن حجر) ہیتمی مکی شافعی (متوفی 974ھ) لکھتے ہیں :

معاویة بن ابی سفیان اخی ام حبیبة زوجة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم……. کاتب الوحی۔

“حضرت سیدنا معاویہ بن ابوسفیان سیدہ ام حبیبہ زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھائی اور کاتب وحی ہیں “

(الصواعق المحرقة فی الرد علی اھل البدع و الزندقة ،خاتمہ فی امور مھمة ،ص 355)

20-علامہ عبدالملک بن حسین بن عبد الملک عصامی مکی (متوفی1111ھ )نے لکھا ہے :

معاویة و کان یکتب الوحی ۔

(سمط النجوم العوالی فی انباء الاوائل و التوالی، ذکر مناقبه ،ج 3 ص155)

21-علامہ اسماعیل بن مصطفی حقی حنفی (متوفی1127ھ) لکھتے ہیں :

(معاویة رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کاتب الوحی ۔

(تفسیر روح البیان، جز1، تحت سورة البقرة، آیة 90،ج1ص180)

22-اعلی حضرت، امام اہل سنت مجدد دین وملت، شیخ الاسلام، حافظ احمد رضا بن مفتی نقی علی خاں ہندی حنفی قدس سرہ (متوفی1340ھ) فرماتے ہیں

“حضور اقدس صلی اللہ وسلم پر قرآن عظیم کی عبارت کریمہ نازل ہوتی، عبارت میں اعراب نہیں لگائے جاتے(تھے)، حضور کے حکم سے صحابہ کرام مثل :امیرالمؤمنین عثمان غنی وحضرت زید بن ثابت و امیر معاویہ وغیرہم رضی اللہ عنہم اسے لکھتے؛ ان کی تحریر میں بھی اعراب نہ تھے، یہ تابعین کے زمانے سے رائج ہوئے۔واللہ تعالیٰ اعلم”

(العطایة النبویة فی الفتاوی الرضویة ،ج26،ص492-493)

23-شارح بخاری، علامہ سید محمود احمد بن سید ابوالبرکات احمد بن سید دیدار علی شاہ محدث الوری حنفی (متوفی1419ھ) فرماتے ہیں:

“ایمان لانے کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ خدمت نبوی سے جدا نہ ہوئے، ہمہ وقت پاس رہتے اور وحی الہی کی کتابت کرتے “

(شان صحابہ، امیر معاویہ کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام ص32)

👈(یہاں علامہ لقمان شاہد صاحب کے حوالہ جات ختم ہوئے)

24- حافظ الحدیث علامہ جلال الدین سیوطی شافعی متوفی 911ھ نے لکھا ہے

“آپ(معاویہ) رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے کاتبین وحی میں سے ایک ہیں ۔

(تاریخ الخلفاء مترجم ص352)

25-صاحبِ مشکوة شریف ، امام ولی الدین بن عبداللہ محمد بن عبداللہ خطیب البغدادی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :

“آپ رضی اللہ عنہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی تھے”

(اکمال ،مترجم ،ص81 مطبوعہ نعیمی کتب خانہ گجرات)

26- امام المتکلمین، علامہ عبدالعزیز پرہاروی متوفی 1239ھ (مولفِ النبراس) لکھتے ہیں :

“حضرت معاویہ اور حضرت زید رضی اللہ عنہما کو کتابت وحی کے لیے خاص کیا گیا تھا یعنی دوسروں کی نسبت یہ کل وقتی کاتب تھے ۔”

(الناہیہ عن مطاعن امیر معاویہ، مترجم، ص33 ،مکتبہ غوثیہ کراچی)

27-حضرت تاج الفحول محب رسول مولانا شاہ عبدالقادر قادری بدایونی علیہ الرحمہ متوفی 1319ھ “شرح مواہب”کے حوالے سے لکھتے ہیں :

معاویہ بن ابی سفیان بن صخر بن حرب بن امیہ الاموی ابو عبدالرحمن الخلیفہ صحابی تھے ۔فتح مکہ والے سال مسلمان ہوئے، کاتب وحی بھی رہے “

اختلاف علی و معاویہ رضی اللہ عنہما ،مترجم ص 29 مطبوعہ دارالاِسلام لاہور)

28-حکیم الاُمت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :

“امیر معاویہ رضی اللہ عنہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کاتب وحی بھی اور کاتب خطوط بھی تھے”

(حضرت امیر معاویہ پر ایک نظر، ص42،نعیمی کتب خانہ لاہور)

29-مصنف کتب کثیرہ شیخ الحدیث والتفسیر مفتی فیض احمد اویسی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :

“حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کےعظیم القدر صحابی اور رشتہ میں سالے اور قریبی رشتہ دار ہیں بلکہ آپ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبِ وحی ہیں “

(امیر معاویہ پر اعتراضات کے جوابات ص6 ،ایرانی کتب خانہ بہاولپور)

30-محقق اہل سنت ، مصنف کتبِ درسِ نظامی ،شیخ الحدیث قاضی عبدالرزاق بھترالوی زیدہ مجدہ لکھتے ہیں :

کوئی کہے کہ وہ(سیدنا معاویہ) کاتب وحی نہ تھے تو اُس کی بات مانوں یا اکابر کی بات مانوں۔
(پھر آگے آپ نے کاتب وحی ہونے پر اکابر کی کتب سے حوالے بھی دئیے ہیں )

(نجوم التحقیق ص 110مکتبہ امام احمد رضا روالپنڈی)

31-شیخ الحدیث و التفسیر علامہ محمد عبدالرشید جھنگوی علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ

سوال- حضرت امیر معاویہ کو امینِ اسرار نبوت، کاتب الوحی، خال المؤمنین اور رضی اللہ عنہ کہنا جائز ہے یا نہ؟

الجواب – جائز ہے
(آگے آپ نے پھر اس کے جواز پر دلائل بھی دئے ہیں بلکہ آپ نے کتب شیعہ سے آپکا کاتب الوحی ہونا بھی ثابت کیا ہے)

(انظر : دفاع سیدنا امیر معاویہ ص66 ،حضرت امیر معاویہ کے بارے میں کیے گئے چند سوالات کے جوابات ،مطبوعہ دارالاِسلام لاہور)

قارئین محترم جیسا کہ آپ نے پڑھا کثیر محدثین، مورخین جید علماء کی کتب اس بات ہر شاہد ہیں کہ سیدنا امیر معاویہ کاتب وحی تھے اب اگر کوئی کہے کہ کاتب وحی ہونا کوئی فضیلت کی بات نہیں فلاں فلاں بعد میں مرتد ہوگیا تھا اُسے وحی کی کتابت کام نہ آئی تو اس سے کہا جائے گا کہ آپ سیدنا معاویہ کو فلاں، فلاں کیساتھ کیوں ملا رہے ہیں وہ مرتد ہوگئے تھے آپ تو آخری دم تک مسلمان رہے ہیں صحابی رسول کے منصب پر فائز رہے ہیں آپ سے کوئی بھی ایسا فعل سر انجام نہیں ہوا جس سے ارتداد ثابت ہوتا ہو لہذا بغیر فرق کیے ایسی مثال دینا حماقت اور جہالت ہے

ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ فتح مکہ پر مسلمان ہوئے یا کچھ پہلے تو اتنا عرصہ میں کتنی وحی لکھی ہوگی
تو کہا جائے گا کہ چاہے وحی الہی کا ایک لفظ بھی کیوں نہ لکھا ہو آپ کے فضیلت کے لیے کافی ہے ۔

عقل کو تنقید سے فرصت نہیں عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ

فقہ اسلامی 

فقہ کا لغوی معنی سمجھ بوجھ ہے اور اصطلاح میں احکام شرعیہ کو ان کی تفصیلی دلائل کے ساتھ جاننے کا نام فقہ ہے۔
فقہ کوئی نئی اصطلاح نہیں بلکہ نبی کریم صلی الله عليه وسلم کے ایک فرمان سے موخوذ ہے، 

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں نبی کریم صلی الله عليه وسلم نے فرمایا:
*من یرد الله بہ میرا یفقہہ فی الدین* (رواہ البخاری)
الله تعالیٰ جس بندے سے بھلائی کرنا چاہے اس کو دین کی سمجھ بوجھ عطا فرما دیتا ہے۔

دینی فقاہت الله تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔

جب #فقہ_اسلامی کہا جائے تو اس سے مراد چھ فقہی مذاہب ہوتے ہیں۔

🌼فقہ حنفی

🌼فقہ مالکی

🌼فقہ شافعی

🌼فقہ حنبلی

🌼فقہ ظاہری

🌼فقہ جعفری
البتہ اہل سنت پہلے چار فقہی مذاہب میں منحصر ہیں۔

#فقہ_ظاہری کے پیروکار ختم ہو چکے ہیں البتہ موجودہ دور میں غیر مقلدین (بزعم خویش اہلحدیث) اہل ظاہر کی روش اپنائے ہوئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ من پسند روایات کو زیادہ ماننے کے قائل و فاعل ہیں۔ الا ماشاء اللہ ۔
#فقہ_جعفری کے ماننے والے عام طور پر اہل تشیع شیعہ حضرات ہیں۔
باقی کے چار مذاہب(حنفی،شافعی،مالکی،حنبلی) #اہل_سنت کہلاتے ہیں 

ان میں سے احناف یعنی حنفی فقہ کے پیروکار پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہیں جن کا تعداد مسلمانوں کی کل آبادی کا دو تہائی حصہ ہے۔ اور بہت سے ممالک میں اسلامی معاملات کے فیصلے اسی فقہ حنفی کے مطابق کئے جاتے ہیں۔

 ماضی قریب میں مصر میں حسنی مبارک کا تختہ الٹ کر محمد مرسی اقتدار پر مسند نشیں ہوئے 

 جن کا تعلق #اخوان_المسلمین سے ہیں جو تقلید کے حامی نہیں یعنی وہ کسی بھی فقہ کو نہیں مانتے، اس کے باوجود مصر میں رائج الوقت نظام اور فیصلے سرکاری سطح پر فقہ حنفی کے مطابق کیے جاتے ہیں۔
باقی مذاہب کی تفصیل جاری ہے۔

#حنفی_مسلک کی داغ بیل کوفہ میں پڑی اور وہیں یہ پروان چڑھا۔تیسری صدی ہجری میں یہ مسلک عراق سے نکل کر شام، مصر، روم، ماوراء النہر، ایران حتی کہ ہندوستان اور چین کی حدود بھی پھاند گیا۔(مناقب الامام الاعظم للموفق،جلد:2، صفحہ:132)

اس دور سے لے کر آج تک اکثر مسلم ممالک اور حکومتوں کا قلمدان فقہ حنفی کے سپرد ریا۔

مغلوں کے بعد برصغیر میں برسراقتدار آنے والے خاندانوں میں اکثر حنفی تھے۔

🌼سلطان محمود غزنوی رحمہ الله تعالیٰ فقہ حنفی کے بہت بڑے عالم اور فقیہ تھے، فقہ حنفی پر ان کی #کتاب_التفرید مشہور و معروف ہے۔

🌼سلطان نور الدین زنگی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کا سارا خاندان حنفی تھا۔آپ نے مناقب امام اعظم پر ایک کتاب بھی لکھی۔

🌼سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کا اکثر خاندان حنفی تھا۔

🌼چرکسی خاندان جو کہ ڈیڑھ سوسال تک مصر میں برسراقتدار رہا حنفی المسلک تھا۔

🌼ہندوستان میں آل تیمور کا  مسلک بھی حنفی تھا۔
#فقہ_مالکی سرزمین حجاز میں پھیلی، اس کے بعد مصر، اندلس، اور مغرب(مراکش) میں رائج ہوئی۔

اندلس اور مغرب میں آج تک کوئی دوسرا مسلک اس فقہ پر غالب نہیں آ سکا۔
#فقہ_شافعی کی ابتداء عراق سے ہوئی، پھر حجاز، شام، خراسان، ماوراء النہر میں پھیل گیا۔ مصر میں سرکاری سرپرستی حاصل رہی۔ 
#فقہ_حنبلی نے حجاز، شام، عراق اور مصر میں اثرات مرتب کئے۔

سعودی عرب میں اس فقہ کو سرکاری مذہب کی حیثیت حاصل ہے۔
#فقہ_جعفری کے ماننے والے ایران، عراق، لبنان، شام، ہندوستان، پاکستان اور افغانستان میں پائے جاتے ہیں۔ ایران میں سرکاری مذہب جعفری اثناء عشری ہے۔
#فقہ_ظاہری بغداد اور بلاد فارس میں تیسری اور چوتھی صدی میں معروف رہا۔ مغربی دنیا میں اندلس میں پانچویں سے ساتویں صدی اس کے عروج کی صدی مانی جاتی ہے۔
آج فقہ ظاہری کا وجود ختم ہو چکا ہے باقاعدگی سے کسی بھی جگہ پر نافذ العمل نہیں ہے۔ البتہ علمی حلقوں میں کسی حد تک موجود ہے۔

🌹عوام میں قرآن و سنت کی مراد کو سمجھنے کی صلاحیت تامہ نہ ہونے کی وجہ سے دوسری اور تیسری صدی میں ان مذاہب فقہیہ کی تقلید کا سلسلہ شروع ہوا اور لوگ ان مذاہب کے مطابق قرآن و سنت پر عمل کرنے لگے۔ اعلی حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ،  حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں:

🌹دو صدی کے بعد خاص ایک مجتہد کا مذہب اختیار کرنا اہل اسلام میں شائع ہوا، کم ہی کوئی شخص تھا جو ایک امام معین کے مذہب پر اعتماد نہ کرتا ہو اور اس وقت یہی واجب ہوا۔

🌹مزید فرماتے ہیں:

خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایک مذہب کا اختیار کر لینا ایک راز ہے جو حق سبحانہ و تعالیٰ نے علماء کے قلوب میں القاء فرمایا اور انہیں اس پر جمع کر دیا چاہے اس راز کو سمجھ کر اس پر متفق ہوئے ہوں یا بے جانے۔ 

(الفضل الموھبی، صفحہ 23مطبع لاہور)
#ائمہ_اربعہ میں سے ایک امام کی تقلید پر امت کا اجماع واقع ہوا یہی وجہ ہے کہ تب سے لے کر آج تک کوئی محدث، مفسر مفتی یا عالم ایسا نہیں ہوا جو کسی نہ کسی امام کا مقلد نہ ہو۔الا ماشاء اللہ ۔
“”امام بخاری شافعی، امام مسلم شافعی، امام ابوداؤد حنبلی، امام ترمذی شافعی، امام ابن ماجہ شافعی، امام محمد حنفی، امام ابو یوسف حنفی، امام عینی حنفی”” 

 الغرض محدثین و مفسرین کی ایک طویل فہرست ہے جو کسی نہ کسی امام کے مقلد ہیں۔ اور شاید دوچار بھی ایسے معروف محدث نہ مل سکیں جو کسی امام معین کے مقلد نہ ہوں۔
*🌹اہلسنت و جماعت 🌹*

اب اہلسنّت چار مشہور فقہی مذاہب میں منحصر ہیں۔ چنانچہ علامہ سید احمد طحطاوی فرماتے ہیں:

یہ نجات والا گروہ یعنی اہلسنت و جماعت آج چار مذاہب حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی میں جمع ہو گیا، اب جو ان چار سے باہر ہے، بدمذہب جہنمی ہیں۔ (حاشیہ در مختار، جلد4،صفحہ، 153،مطبع مصر)https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=793766297468072&id=510727835771921