امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کاتب وحی

بسم اللہ والصلوة والسلام علی خاتم النبیین و آلہ و صحبہ اجمعین

یہ تحریر اپنے پاس محفوظ کرلیں ان شاءاللہ کام آئے گی

حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کاتب وحی تھے جس کا ثبوت اہل سنت کی کثیر کتب میں موجود ہے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ صرف کاتب تھے خطوط وغیرہ لکھا کرتے تھے تو اُن سے گزارش ہے کہ ایک لمحے کیلئے اگر آپکی بات مان لی جائے تو ذرا بتائیے کہ حضور علیہ السلام کی صحبت بابرکت میں خطوط ہی لکھنا کیا باعث سعادت و شرف نہیں اور حقیقت یہ ہے کہ آپ تو کتابت وحی بھی کرتے تھے —-
اس موضوع پر مواد تلاش کرنے کیلئے کئی کتب دیکھی ہیں اور بہت کچھ ملا بھی ہے پھر ایک دن حضرت علامہ قاری لقمان شاہد قادری صاحب زیدہ مجدہ کی اپنے موضوع پر نہایت عمدہ کتاب “من ھو معاویہ”نظر سے گزری تو اس میں سیدنا معاویہ کے کاتب وحی ہونے پر کثیر حوالہ جات موجود پائے، دیکھ کر اطمینان قلب ملا اور خوشی ہوئی کہ اللہ رب العزت نے ہمیں ایک سے بڑھ کر ایک محقق علماء عطا فرمائے ہیں ، سوچا مزید تلاش کی بجائے کیوں نہ یہی پورا مضمون من و عن لکھ دوں اور پھر جو تھوڑا بہت مواد خود اکٹھا کیا ہے اسے بھی (وضاحت) کے ساتھ مِلا دوں تاکہ قاری کو اچھا خاصہ مواد ایک جگہ مل سکے ، ورنہ نہ ماننے والے کے لئے تو دفتر بھی کم ہیں اور ماننے والے کے لئے ایک سطر ہی کافی ہے

👈محترم علامہ لقمان شاہد صاحب لکھتے ہیں :

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد (ایک روایت کے مطابق) آپ کے والد گرامی رضی اللہ عنہ نے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں عرض کی تھی : یانبی اللہ! میرے بیٹے معاویہ کو اپنا کاتب بنا لیجیے! تو حضور نے ان کی عرضی قبول فرمالی ۔

(انظر :صحیح مسلم باب من فضائل ابی سفیان…………، ج4،ص1945،رقم2501 صحیح ابن حبان، ذکر ابی سفیان…….. ج 16،ص189،رقم7209،وغیرہ)

اور سیدنا معاویہ کو اپنا کاتب مقرر فرما دیا ۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس خدمت کے لئے بارگاہِ اقدس میں رہنے لگے ۔جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

ان معاویة کان یکتب بین یدی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔

سیدنا معاویہ حضور کی بارگاہ میں کتابت کا فریضہ سر انجام دیتے تھے ۔

(المعجم الکبیر للطبرانی، مسند عبداللہ بن عمرو….، ج 13ص554،رقم 14446)

حافظ نور الدین ہیثمی (متوفی807ھ) کہتے ہیں :اس حدیث کی سند حسن ہے ۔
(مجمع الزوائد و منبع الفوائد، باب ماجاء فی معاویة …..ج 9 ص357 ، رقم15924)

اسی دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی تربیت بھی فرمایا کرتے جیسا کہ آپ خود بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب میں لکھ رہا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

یا معاویة ! الق الدواة ، حرف القلم، وانصب الباء، و فرق السین، ولا تعور المیم، وحسن اللہ، و مد الرحمن، وجود الرحیم۔

“اے معاویہ! دوات کی سیاہی درست رکھو، قلم کو ٹیڑھا کرو، (بسم اللہ الرحمن الرحیم کی) “ب”کھڑی لکھو “س” کے دندانے جدا رکھو، “م” کے دائرے کو اندھا نہ کرو (کھلا رکھو)، لفظ “اللہ” خوب صورت لکھو، لفظ “رحمن” کو دراز کرو اور لفظ “رحیم” عمدگی سے لکھو !”

(فضائل القرآن للمستغفری، باب ماجاء فی فضل بسم اللہ الرحمن الرحیم…..، ج 1ص436رقم 556_الفردوس بماثور الخطاب، باب الیا، ج5، ص394، رقم 853_آداب الاملاء والستملاء، البحر والکاغذ، ص170_نھایة الارب فی فنون الادب، ومن معجزاتہ عصمتہ اللہ تعالیٰ لہ من الناس………،ج 18،ص346_المدخل لابن الحاج، فصل فی نیة الناسخ و کیفتیھا، ج 4،ص، 84_العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ رسالہ خالص الاعتقاد ج 29ص459وغیرہ)

پھر ایک وقت آیا کہ عام کتابت کے علاوہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی کتابت وحی کی بھی ذمہ داری لگادی، تو اس طرح دیگر کُتّابِ صحابہ رضوان اللہ اجمعین کے ساتھ آپ بھی یہ فریضہ سر انجام دینے لگے

آپ کی اسی ذمہ داری کی بابت سیدنا عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین فرماتے ہیں :

وکان یکتب الوحی۔

“حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ وحی لکھا کرتے تھے “
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان امام بیہقی (متوفی458ھ) نے نقل کیا ہے، اور اس کے بارے میں امام ذہبی فرماتے ہیں

“قد صح ابن عباس “(یعنی ابن عباس نے صحیح کہا____اصمعی)

(انظر :دلائل النبوۃ و معرفة احوال صاحب الشریعہ، باب ماجاء فی دعائه صلی اللہ اللہ علیہ وسلم علی من اکل بشمالہ…… ج6،ص243____تاریخ اسلام، حرف المیم، معاویہ بن ابی سفیان….. ج 4ص309)

جلیل المرتبت علماء کہتے ہیں

1-حافظ ابوبکر محمد بن حسین آجری متوفی 360ھ فرماتے ہیں

معاویة رحمہ اللہ کاتب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی وحی اللہ عزوجل وھو القرآن بامر اللہ عزوجل ۔

“رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب سیدنا معاویہ پر اللہ رحم فرمائے آپ اللہ کے حکم سے وحی اِلہی؛ قرآن پاک لکھا کرتے تھے ۔”

(الشریعۃ کتاب فضائل معاویة…… ج5)

2-حافظ الکبیر امام ابوبکر احمد بن حسین خراسانی بیہقی متوفی458ھ فرماتے ہیں :

وکان یکتب الوحی ۔
“سیدنا امیر معاویہ کاتب وحی تھے۔”

(دلائل النبوۃ ومعرفة احوال صاحب الشریعۃ باب ماجاء فی دعائه صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔۔۔ج6ص 243)

3-امام شمس الائمہ ابوبکر محمد بن احمد سرخسی حنفی متوفی 483ھ فرماتے ہیں :

وکان یکتب الوحی۔

(المبسوط، کتاب الاکراہ، ج24ص47)

4-امام قاضی ابوالحسین محمد بن محمد حنبلی (ابن ابی یعلی) متوفی 526ھ فرماتے ہیں :

(معاویة)کاتب وحی رب العالمین ۔

حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ تمام جہانوں کے رب کی وحی کے کاتب تھے”

(الاعتقاد، الاعتقاد فی الصحابة ص43)

5-امام حافظ ابوالقاسم اسماعیل بن محمد قرشی طلیحی (قوام السنتہ) (متوفی 535ھ )لکھتے ہیں :

“معاویة کاتب الوحی”

(الحجة فی بیان المحجة و شرح عقیدة اھل السنة ،ج2،ص570،رقم566)

6-علامہ ابوالحسن علی بن بسام الشنترینی اندلسی (متوفی542)فرماتے ہیں :

معاویة بن ابی سفیان کاتب الوحی۔

(الذخیرة فی محاسن اھل الجزیرة ،ج1ص110)

7-حافظ ابو عبدالله حسین بن ابراہیم جوزقانی (متوفی543ھ) فرماتے ہیں :

(معاویة )کاتب الوحی۔

(الاباطیل و المناکیر و الصحاح والمشاھیر، باب فی فضائل طلحة و الزبیر و معاویة …..ص116 رقم 191)

8- علامہ ابوالفتوح محمد بن محمد طائی ہمذانی(ابوالفتوح الطائی)متوفی555ھ لکھتے ہیں :
(معاویة )کاتب وحی رسول رب العالمین و معدن الحلم و الحکم ۔

“سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ رسول رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی حلم و دانائی کی کان تھے “

(کتاب الاربعین فی ارشاد السائرین الی منازل المتقین او الاربعین الطائیة ،الحدیث التاسع و العشرون ……ص174)

9-امام حافظ ابوالقاسم علی بن حسن بن ہبتہ اللہ شافعی (ابن عساکر) (متوفی571) لکھتے ہیں :

(معاویة رضی اللہ تعالیٰ عنہ) خال المؤمنین و کاتب وحی ۔

(تاریخ دمشق الکبیر، ذکر من اسمہ معاویة ،معاویة بن صخر ……ج 59 ،رقم 7510)

10-امام حافظ جمال الدین ابوالفرج عبدالرحمن بن علی الجوزی (متوفی597ھ) نے “کشف المشکل”میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے 12کاتبوں کا تذکرہ کیا ہے جن میں حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بھی ہیں ۔

(انظر :کشف المشکل من حدیث الصحیحن، کشف المشکل من مسند زید بن ثابت، ج2ص96)

11-ابوجعفر محمد بن علی بن محمد ابن طباطبا علوی (ابن الطقطقی) (متوفی709ھ) نے لکھا ہے :

و اسلم معاویة و کتب الوحی فی جملة من کتبہ بین یدی الرسول صلی اللہ علیہ وسلم .

(الفخری فی الآداب السلطانیہ و الدول الاسلامیہ، ذکر شیء سیرة معاویة و وصف طرف من حاله، ص109)

12-حافظ عماد الدین اسماعیل بن عمر بن کثیر قرشی الدمشقی شافعی (متوفی772ھ) لکھتے ہیں :

ثم کان ممن یکتب الوحی بین یدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم.

(جامع المسانید و السنن الھادی لاقوم سنن، معاویة بن ابوسفیان، ج 8ص31 رقم 1760)

13-حافظ ابراہیم بن موسی مالکی (شاطبی) (متوفی790ھ)
نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کتابِ وحی میں سیدنا عثمان، سیدنا علی، سیدنا معاویہ، سیدنا مغیرہ بن شعبہ، سیدنا ابی بن کعب، سیدنا زید بن ثابت وغیرہم کا ذکر کیا ہے :

(انظر: الاعتصام ص239)

14-اسی طرح حافظ ابوالحسن نور الدین علی بن ابوبکر نن سلیمان ہیثمی (متوفی 807ھ) نے بھی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے کُتّابِ وحی کے بارے میں سیدنا معاویہ کا تذکرہ کیا ہے ۔

(انظر: مجمع الزوائد و منبع الفوائد، باب فی کتاب الوحی ج1ص 153 رقم 686)

15-علامہ تقی الدین ابو العباس احمد بن علی حسینی مقریزی (متوفی845)فرماتے ہیں

وکان یکتب الوحی۔
سیدنا معاویہ کاتب وحی تھے۔

(امتاع الاسماع بما لنبی من الاحوال و الاموال و الحفدة والمتاع و اما اجابة اللہ دعوة الرسول صلی اللہ علیہ وسلم……. ج 12 ،ص 113)

16-امام حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجرعسقلانی شافعی (متوفی852ھ) لکھتے ہیں

معاویة ابن ابی سفیان…. الخلیفة صحابی، اسلم قبل الفتح، وکتب الوحی ۔

“سیدنا معاویہ فتح مکہ سے پہلے اِسلام لائے، آپ خلیفتہ المسلمین، صحابی اور کاتب وحی ہیں

(تقریب التہذیب، حرف المیم ص470 رقم 6758)

17-امام حافظ بدرالدین ابو محمد محمود بن احمد عینی حنفی (متوفی855)لکھتے ہیں :

معاویة بن ابی سفیان صخر بن حرب الاموی کاتب الوحی ۔

(عمدة القاری، شرح صحیح البخاری، کتاب العلم، باب من یرداللہ به خیرا یفقھه فی الدین، ج2،ص73،رقم 71)

18-علامہ شہاب الدین ابوالعباس احمد بن محمد قسطلانی مصری شافعی(متوفی 923ھ)
لکھتے ہیں

وھو مشھور بکتابة الوحی۔
“سیدنا معاویہ مشہور کاتب وحی ہیں “

(المواہب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ، الفصل السادس فی امرائه و رسله و کتابه …..، ج1،ص 533)

علامہ قسطلانی نے “ارشاد الساری”میں بھی لکھا ہے کہ

(معاویة) بن ابی سفیان صخر بن حرب کاتب الوحی لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذا المناقب الجمعة ۔

(انظر: ارشاد الساری لشرح صحیح البخاری، کتاب العلم، باب من یرد اللہ به خیرا یفقھه فی الدین، ج1،ص170،رقم71)

19-امام حافظ شہاب الدین ابو العباس احمد بن محمد (ابن حجر) ہیتمی مکی شافعی (متوفی 974ھ) لکھتے ہیں :

معاویة بن ابی سفیان اخی ام حبیبة زوجة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم……. کاتب الوحی۔

“حضرت سیدنا معاویہ بن ابوسفیان سیدہ ام حبیبہ زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھائی اور کاتب وحی ہیں “

(الصواعق المحرقة فی الرد علی اھل البدع و الزندقة ،خاتمہ فی امور مھمة ،ص 355)

20-علامہ عبدالملک بن حسین بن عبد الملک عصامی مکی (متوفی1111ھ )نے لکھا ہے :

معاویة و کان یکتب الوحی ۔

(سمط النجوم العوالی فی انباء الاوائل و التوالی، ذکر مناقبه ،ج 3 ص155)

21-علامہ اسماعیل بن مصطفی حقی حنفی (متوفی1127ھ) لکھتے ہیں :

(معاویة رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کاتب الوحی ۔

(تفسیر روح البیان، جز1، تحت سورة البقرة، آیة 90،ج1ص180)

22-اعلی حضرت، امام اہل سنت مجدد دین وملت، شیخ الاسلام، حافظ احمد رضا بن مفتی نقی علی خاں ہندی حنفی قدس سرہ (متوفی1340ھ) فرماتے ہیں

“حضور اقدس صلی اللہ وسلم پر قرآن عظیم کی عبارت کریمہ نازل ہوتی، عبارت میں اعراب نہیں لگائے جاتے(تھے)، حضور کے حکم سے صحابہ کرام مثل :امیرالمؤمنین عثمان غنی وحضرت زید بن ثابت و امیر معاویہ وغیرہم رضی اللہ عنہم اسے لکھتے؛ ان کی تحریر میں بھی اعراب نہ تھے، یہ تابعین کے زمانے سے رائج ہوئے۔واللہ تعالیٰ اعلم”

(العطایة النبویة فی الفتاوی الرضویة ،ج26،ص492-493)

23-شارح بخاری، علامہ سید محمود احمد بن سید ابوالبرکات احمد بن سید دیدار علی شاہ محدث الوری حنفی (متوفی1419ھ) فرماتے ہیں:

“ایمان لانے کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ خدمت نبوی سے جدا نہ ہوئے، ہمہ وقت پاس رہتے اور وحی الہی کی کتابت کرتے “

(شان صحابہ، امیر معاویہ کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام ص32)

👈(یہاں علامہ لقمان شاہد صاحب کے حوالہ جات ختم ہوئے)

24- حافظ الحدیث علامہ جلال الدین سیوطی شافعی متوفی 911ھ نے لکھا ہے

“آپ(معاویہ) رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے کاتبین وحی میں سے ایک ہیں ۔

(تاریخ الخلفاء مترجم ص352)

25-صاحبِ مشکوة شریف ، امام ولی الدین بن عبداللہ محمد بن عبداللہ خطیب البغدادی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :

“آپ رضی اللہ عنہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی تھے”

(اکمال ،مترجم ،ص81 مطبوعہ نعیمی کتب خانہ گجرات)

26- امام المتکلمین، علامہ عبدالعزیز پرہاروی متوفی 1239ھ (مولفِ النبراس) لکھتے ہیں :

“حضرت معاویہ اور حضرت زید رضی اللہ عنہما کو کتابت وحی کے لیے خاص کیا گیا تھا یعنی دوسروں کی نسبت یہ کل وقتی کاتب تھے ۔”

(الناہیہ عن مطاعن امیر معاویہ، مترجم، ص33 ،مکتبہ غوثیہ کراچی)

27-حضرت تاج الفحول محب رسول مولانا شاہ عبدالقادر قادری بدایونی علیہ الرحمہ متوفی 1319ھ “شرح مواہب”کے حوالے سے لکھتے ہیں :

معاویہ بن ابی سفیان بن صخر بن حرب بن امیہ الاموی ابو عبدالرحمن الخلیفہ صحابی تھے ۔فتح مکہ والے سال مسلمان ہوئے، کاتب وحی بھی رہے “

اختلاف علی و معاویہ رضی اللہ عنہما ،مترجم ص 29 مطبوعہ دارالاِسلام لاہور)

28-حکیم الاُمت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :

“امیر معاویہ رضی اللہ عنہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کاتب وحی بھی اور کاتب خطوط بھی تھے”

(حضرت امیر معاویہ پر ایک نظر، ص42،نعیمی کتب خانہ لاہور)

29-مصنف کتب کثیرہ شیخ الحدیث والتفسیر مفتی فیض احمد اویسی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :

“حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کےعظیم القدر صحابی اور رشتہ میں سالے اور قریبی رشتہ دار ہیں بلکہ آپ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبِ وحی ہیں “

(امیر معاویہ پر اعتراضات کے جوابات ص6 ،ایرانی کتب خانہ بہاولپور)

30-محقق اہل سنت ، مصنف کتبِ درسِ نظامی ،شیخ الحدیث قاضی عبدالرزاق بھترالوی زیدہ مجدہ لکھتے ہیں :

کوئی کہے کہ وہ(سیدنا معاویہ) کاتب وحی نہ تھے تو اُس کی بات مانوں یا اکابر کی بات مانوں۔
(پھر آگے آپ نے کاتب وحی ہونے پر اکابر کی کتب سے حوالے بھی دئیے ہیں )

(نجوم التحقیق ص 110مکتبہ امام احمد رضا روالپنڈی)

31-شیخ الحدیث و التفسیر علامہ محمد عبدالرشید جھنگوی علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ

سوال- حضرت امیر معاویہ کو امینِ اسرار نبوت، کاتب الوحی، خال المؤمنین اور رضی اللہ عنہ کہنا جائز ہے یا نہ؟

الجواب – جائز ہے
(آگے آپ نے پھر اس کے جواز پر دلائل بھی دئے ہیں بلکہ آپ نے کتب شیعہ سے آپکا کاتب الوحی ہونا بھی ثابت کیا ہے)

(انظر : دفاع سیدنا امیر معاویہ ص66 ،حضرت امیر معاویہ کے بارے میں کیے گئے چند سوالات کے جوابات ،مطبوعہ دارالاِسلام لاہور)

قارئین محترم جیسا کہ آپ نے پڑھا کثیر محدثین، مورخین جید علماء کی کتب اس بات ہر شاہد ہیں کہ سیدنا امیر معاویہ کاتب وحی تھے اب اگر کوئی کہے کہ کاتب وحی ہونا کوئی فضیلت کی بات نہیں فلاں فلاں بعد میں مرتد ہوگیا تھا اُسے وحی کی کتابت کام نہ آئی تو اس سے کہا جائے گا کہ آپ سیدنا معاویہ کو فلاں، فلاں کیساتھ کیوں ملا رہے ہیں وہ مرتد ہوگئے تھے آپ تو آخری دم تک مسلمان رہے ہیں صحابی رسول کے منصب پر فائز رہے ہیں آپ سے کوئی بھی ایسا فعل سر انجام نہیں ہوا جس سے ارتداد ثابت ہوتا ہو لہذا بغیر فرق کیے ایسی مثال دینا حماقت اور جہالت ہے

ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ فتح مکہ پر مسلمان ہوئے یا کچھ پہلے تو اتنا عرصہ میں کتنی وحی لکھی ہوگی
تو کہا جائے گا کہ چاہے وحی الہی کا ایک لفظ بھی کیوں نہ لکھا ہو آپ کے فضیلت کے لیے کافی ہے ۔

عقل کو تنقید سے فرصت نہیں عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ